شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

دلاور علی آزر

  • غزل


میں سرخ پھول کو چھو کر پلٹنے والا تھا


میں سرخ پھول کو چھو کر پلٹنے والا تھا
وہ جذب تھا کہ مرا جسم کٹنے والا تھا

اس ایک رنگ سے پیدا ہوئی یہ قوس قزح
وہ ایک رنگ جو منظر سے ہٹنے والا تھا

مرے قریب ہی اک طاق میں کتابیں تھیں
مگر یہ دھیان کہیں اور بٹنے والا تھا

عجیب شان سے اتری تھی دھوپ خواہش کی
میں اپنے سائے سے جیسے لپٹنے والا تھا

طویل گفتگو ہوتی رہی ستاروں سے
نگار خانۂ ہستی الٹنے والا تھا

زمیں پہ آمد آدم کا شور برپا ہوا
وگرنہ رزق فرشتوں میں بٹنے والا تھا

خدا کا شکر ہے نشہ اتر گیا میرا
کہ میں سبو میں سمندر الٹنے والا تھا

لپک رہی تھی کوئی آگ اس طرف آزرؔ
میں اس سے دور بہت دور ہٹنے والا تھا


Leave a comment

+