شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمینہ گل

  • غزل


شوق دیدار نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا


شوق دیدار نے کیا کیا نہ تماشا دیکھا
جان من کیسے بتائیں تمہیں کیا کیا دیکھا

زندگی آگ ہے اور آگ کی خاطر ہم نے
دیپ کی آنکھ میں جلتا ہوا چہرہ دیکھا

میں نے لمحوں میں گزاری ہیں ہزاروں صدیاں
وقت کی دھوپ میں پگھلا ہوا دریا دیکھا

صبح روشن نے اتاری ہیں ستارہ آنکھیں
شاخ شمشاد نے گلشن کا دریچہ دیکھا

راز ہستی میں زمیں ساری تصور نکلی
آسماں اپنے تخیل کا صحیفہ دیکھا

داغ دامن کو اٹھائے ہوئے پھرتی ہے ہوا
دھول ہی دھول ہوا سارا وہ رستہ دیکھا

گل کی آنکھوں میں مچلتی ہوئی یادیں اس کی
رنگ و آہنگ سے بدلتا ہوا شیشہ دیکھا


Leave a comment

+