شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصرہ زبیری

  • غزل


نہیں ہے یوں کہ اسے ہم تمام بھول گئے


نہیں ہے یوں کہ اسے ہم تمام بھول گئے
وہ شکل یاد رہی اس کا نام بھول گئے

وہ بولتی ہوئی آنکھیں ہمیں رہیں ازبر
زبان خلق کے سارے کلام بھول گئے

تلاش تشنہ لبی میں وہ نشہ تھا کہ ہمیں
نصیب میں تھے جو لبریز جام بھول گئے

ملا تو سنتے رہے داستان دشمن کی
ہمارے دل میں تھا جو انتقام بھول گئے

کسے سمجھنا ہے رہزن تو رہنما کس کو
یہ فیصلے کی گھڑی میں عوام بھول گئے

یہ بے خودی سے بھی آگے کی راہ تھی شاید
جسے پکارنے نکلے وہ نام بھول گئے


Leave a comment

+