دونوں جانب قید شدہ اس خوش فہمی میں رہتے ہیں
سرحد کے اس پار پرندے آزادی میں رہتے ہیں
شام تلک آداب بجاتے گردن دکھنے لگتی ہے
پیادے ہو کر شاہوں والی آبادی میں رہتے ہیں
گر روئے تو آنکھوں کے سب باشندے بہہ جائیں گے
ہائے شکستہ خواب ہمارے اس بستی میں رہتے ہیں
زینہ در زینہ جب تیری یاد اتر کر آتی ہے
منہ بائے اشعار ہمارے حیرانی میں رہتے ہیں
اس کی بک بک گھر سے چل کر چاند تلک ہو آتی ہیں
اور ہم گم اس کے ہونٹوں کی ترپائی میں رہتے ہیں
چار کتابیں ساتھ نہیں اور سو غزلیں کہہ بھی ماریں
اب کے لکھنے والے جانے کس جلدی میں رہتے ہیں
آدھی رات غزل کہنے کا شوق کسے ہے سوربھؔ جی
بس اتنی سی بات ہے تب ہم تنہائی میں رہتے ہیں
Leave a comment