شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جعفر ساہنی

  • غزل


زوال عمر کے پردے میں ہے حجاب کہاں


زوال عمر کے پردے میں ہے حجاب کہاں
وفور شوق سے لبریز اب گلاب کہاں

کرن کرن سے فسانہ حسین لکھتا تھا
چلا گیا وہ فسوں کارآفتاب کہاں

نمود صبح کو دیتا صدا چلا آئے
ہماری رات میں باقی ہے ایسا خواب کہاں

ہر اک قدم پہ خرد کے نشان ملتے ہیں
تجھے چھپا کے میں رکھوں دل خراب کہاں

سنہرے وقت میں ریگ رواں یہ پھول کھلا
وہ قصہ پیار کا لے کر گئے ہیں خواب کہاں

سیہ سفید گھٹا آسماں پہ پھیلی تھی
پر اس کے جال میں آیا وہ ماہتاب کہاں

تغیرات زمانے کے اس نے بتلائے
مرے سوال کے حق میں تھا وہ جواب کہاں

تلاش خواب میں میرے قدم وہ لیتا تھا
زباں پہ اس کی ہے اب آپ اور جناب کہاں

صدائے درد سے واقف دل نفس جعفرؔ
کوئی بتائے کہ ہوتا ہے دستیاب کہاں


Leave a comment

+