شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فارغ بخاری

  • غزل


ہوئے ہیں سرد دماغوں کے دہکے دہکے الاؤ


ہوئے ہیں سرد دماغوں کے دہکے دہکے الاؤ
نفس کی آنچ سے فکر و نظر کے دیپ جلاؤ

کرن کرن کو سیہ بدلیوں نے گھیر لیا ہے
تصورات کے دھندلے چراغو راہ دکھاؤ

کہاں ہے گردش دوراں کدھر ہے سیل حوادث
سکون‌ مرگ مسلسل میں ڈوبنے لگی ناؤ

کبھی خزاں کے بگولے کبھی بہار کے جھولے
سمجھ سکے نہ زمانے کے یہ اتار چڑھاؤ

عجیب سا ہے خرابات کے فقیہوں کا فتویٰ
بھڑکتے شعلوں سے تپتے دلوں کی پیاس بجھاؤ

ہزار گردنیں خم ہوں برا نہیں پہ ستم ہے
خیال و فکر کی پستی نگاہ و دل کا جھکاؤ


Leave a comment

+