شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فاروق مضطر

  • غزل


اجلے ماتھے پہ نام لکھ رکھیں


اجلے ماتھے پہ نام لکھ رکھیں
خواہشوں کا مقام لکھ رکھیں

پھر ہوس کو ہے حسرت پرواز
آپ دانہ و دام لکھ رکھیں

ورنہ ہم اس کو بھول جائیں گے
سبز حرفوں میں نام لکھ رکھیں

جانے کس سمت کل ہوا لے جائے
لمحۂ شاد کام لکھ رکھیں

اپنے ہونے کا کچھ یقیں کر لیں
ریت پر نقش و نام لکھ رکھیں

شب کو ٹھٹھریں گے سب در و دیوار
دھوپ کچھ اپنے نام لکھ رکھیں

زردیاں اوڑھنے لگا سورج
نامۂ خوف شام لکھ رکھیں

پیلے پیلے بدن ہوا موسم
پیلا پیلا تمام لکھ رکھیں

آنے والے اداس نسلوں کے
سلسلہ وار نام لکھ رکھیں


Leave a comment

+