شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فاروق شفق

  • غزل


کوئی بھی شخص نہ ہنگامۂ مکاں میں ملا


کوئی بھی شخص نہ ہنگامۂ مکاں میں ملا
ہر ایک جلتے ہوئے غم کے سائباں میں ملا

کوئی نہ ذہن میں صورت نہ کوئی خاکہ ہے
وہ مجھ سے جب بھی ملا ملگجے دھواں میں ملا

بیان کرنے پہ آؤں تو لفظ ٹوٹتے ہیں
وہ ایک عکس جو بجھتے ہوئے سماں میں ملا

وہ شے کہ جس نے دھواں دل میں میرے پھیلایا
نشان اس کا نہ کچھ دور تک دھواں میں ملا

سفر تمام ہوا اتنی خوش خرامی سے
تناؤ بھی نہیں کشتی کے بادباں میں ملا

ذرا یہ سوچ حقیقت بنا تو کیا ہوگا
وہ شائبہ جو مجھے سرحد گماں میں ملا

سنا ہے ہر گھڑی تو مسکراتا رہتا ہے
مجھے بھی جذب ذرا کر کے جسم و جاں میں ملا

ٹھہر سکے گا نہ ہر شخص زد پہ سوچا نہیں
وہ تیر چل گیا جو وقت کی کماں میں ملا

جو مجھ پہ میچ کرے میرا اپنا کہلائے
لباس ایسا نہ مجھ کو سجی دکاں میں ملا


Leave a comment

+