خود اپنی ذات کے شہ پر میں ہوں میں
کبھی مرکز کبھی محور میں ہوں میں
ابھی مجھ میں بہت ہمت ہے لیکن
کسی ہارے ہوئے لشکر میں ہوں میں
بہادر ہے اماں سڑکوں پہ لیکن
ڈرا سہما ہوا سا گھر میں ہوں میں
یقیں ساحل پہ ہونے کا تو ہوگا
ابھی تشکیک کے ساگر میں ہوں میں
وہ آنکھوں سے اتر آیا ہے دل میں
اسی منظر کے پس منظر میں ہوں میں
اگر ہے تاج چاہت کی علامت
تو اس کے ایک اک پتھر میں ہوں میں
Leave a comment