شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

زاہد چوہدری

  • غزل


چمن میں سیر گل کو جب کبھی وہ مہ جبیں نکلے


چمن میں سیر گل کو جب کبھی وہ مہ جبیں نکلے
مری تار رگ جاں سے صدائے آفریں نکلے

سمجھ جاتا ہوں فوراً کیا ہے مطلب لن ترانی کا
مری خواہش پہ جب پردے سے وہ پردہ نشیں نکلے

فلک نے جب کیا حملہ مری شاخ نشیمن پر
جو دشمن سامنے آئے وہ اپنے ہم نشیں نکلے

وہ جن سے شہد مانگا تھا انہوں نے زہر دے ڈالا
جنہیں سمجھا تھا میں ہمدم وہ مار آستیں نکلے

میں جب ان دوستوں کی بے رخی پر غور کرتا ہوں
مرے غم خانۂ دل سے فغان آتشیں نکلے

تری محفل میں ہر بہروپئے کا ہے مقام اونچا
حقیقت میں جو اہل دل ہیں وہ عزلت گزیں نکلے

فروغ علم بے قدری کی حالت میں نہیں ممکن
خس و خاشاک ہونے کو صدف سے کیوں نگیں نکلے

جنہوں نے کھیت لہرائے ہیں اپنے خوں پسینے سے
عجب طرفہ ہے وہ مردان محنت بے زمیں نکلے

گزارے میں نے جو لمحات آغوش تصور میں
وہ میری زندگی کے روز و شب میں بہتریں نکلے

میں اپنی آبرو مندی میں پا مردی کا پیکر ہوں
میں وہ آدم نہیں جو چھوڑ کر خلد بریں نکلے

وہ مے نوشی میں کرتے ہیں امامت بت پرستوں کی
جناب شیخ مے خانے میں بھی مسند نشیں نکلے


Leave a comment

+