تمہیں اس دل سے کیا عادی ہوا ہے
کہ جلنے کا دیا عادی ہوا ہے
اسے نیند آئے بھی تو کیسے آئے
وہ میرے خواب کا عادی ہوا ہے
وہ آئے تو فضائیں جھومتی ہیں
کسی کا راستہ عادی ہوا ہے
کہا روتا ہے کیوں دل کو سنبھالو
تو ہنس کر یہ کہا عادی ہوا ہے
زمانے کو نہ جانے یہ ہوا کیا
زمانہ آپ کا عادی ہوا ہے
Leave a comment