شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ثمیر کبیر

  • غزل


آ کے اک بار مرے یار ذرا دیکھ تو لے


آ کے اک بار مرے یار ذرا دیکھ تو لے
چارہ گر خود بھی ہے بیمار ذرا دیکھ تو لے

دن گزرتا ہے ترے ہجر میں تھوڑا تھوڑا
گردش وقت کی یہ مار ذرا دیکھ تو لے

قلب وارفتہ کی ہر آہ بھی سہمی سہمی
دھیمی دھیمی سی ہے رفتار ذرا دیکھ تو لے

اب بھی محفوظ ہیں آنکھوں میں وہ سارے منظر
وہی نخرے وہی تکرار ذرا دیکھ تو لے

نہ سمندر ہے نہ ساحل نہ کوئی کشتی ہے
کیسے اترے گا وہ اس پار ذرا دیکھ تو لے

تم کہ ہر بات پہ سڑکوں پے اتر آتے ہو
زنگ آلودہ ہے تلوار ذرا دیکھ تو لے

میں کہ بیٹھا ہوں ترے در پہ سوالی بن کر
ہوں گے کتنے ہی گرفتار ذرا دیکھ تو لے

ہم کہ خنجر سے بھی دو باتیں کیا کرتے ہیں
زخم گہرا ہے سو تلوار ذرا دیکھ تو لے


Leave a comment

+