شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

یونس تحسین

  • غزل


کلیجے کرب سہتے سہتے چھلنی ہو چکے ہیں


کلیجے کرب سہتے سہتے چھلنی ہو چکے ہیں
مگر اب کیا کریں ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں

ہمارے سامنے سے عشق و الفت کو اٹھا لے
یہ قصے ہم تک آتے آتے ردی ہو چکے ہیں

ستم اے گردش دوراں کسے دکھڑے سنائیں
دلاسہ دینے والے ہاتھ مٹی ہو چکے ہیں

تو کیا پیاسوں کو پانی بھی پلانے سے گئے ہم
تو کیا یہ مان لیں ہم لوگ کوفی ہو چکے ہیں

ہمارے شہر سے ممکن ہو تو بچ کر گزر جا
ہمارے شہر کے سب لوگ وحشی ہو چکے ہیں

ارے حیرت سے کیا دیکھے ہیں آنکھوں کو ہماری
یہ مشکیزے تو اک مدت سے خالی ہو چکے ہیں

جو موزوں ہیں انہیں قیمت مناسب ہی ملے گی
مگر سستے بکیں گے وہ جو داغی ہو چکے ہیں

ہمارا نام ناموں سے الگ لکھے گی دنیا
کہ ہم تیری محبت میں مثالی ہو چکے ہیں


Leave a comment

+