شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حسن رضوی

  • غزل


اس کی آنکھیں ہرے سمندر اس کی باتیں برف


اس کی آنکھیں ہرے سمندر اس کی باتیں برف
پھر بھی نقش ہوا ہے دل پر اس کا اک اک حرف

کوئی بھرے کانٹوں سے دامن کوئی پھول چنے
اپنا اپنا دامن سب کا اپنا اپنا ظرف

اس کی چاہ میں رانجھا بن کر بیلا بیلا گھومے
دھوپ کے اس صحرا میں اپنی عمر ہوئی ہے صرف

اک دوجے کو دیکھ نہ پائے برسوں بیت گئے
آنکھوں کی پتلی میں کھو کر رہ گئے کتنے حرف

سوکھے دریاؤں کی صورت قطرہ قطرہ ترسیں
جانے کب چمکے گا سورج کب پگھلے گی برف


Leave a comment

+