شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

راحت حسن

  • غزل


احباب ہیں کیوں دنگ مجھے ہی نہیں معلوم


احباب ہیں کیوں دنگ مجھے ہی نہیں معلوم
کس سے ہے مری جنگ مجھے ہی نہیں معلوم

تابانیٔ جذبات میں آئی ہے کمی کیا
پھیکا ہے کیوں ہر رنگ مجھے ہی نہیں معلوم

مدت سے میں جو داغ مٹانے میں لگا ہوں
کہتے ہیں اسے زنگ مجھے ہی نہیں معلوم

دن رات یوں کرتا ہے مجھے کون مقید
کیوں کر ہے زمیں تنگ مجھے ہی نہیں معلوم

اب کون مرے سر کو بناتا ہے نشانہ
کس ہاتھ میں ہے سنگ مجھے ہی نہیں معلوم

ہر لفظ کا مفہوم بدل جاتا ہے راحتؔ
کیسی ہے یہ فرہنگ مجھے ہی نہیں معلوم


Leave a comment

+