شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

غلام حسین ساجد

  • غزل


کوئی جب چھین لیتا ہے متاع صبر مٹی سے


کوئی جب چھین لیتا ہے متاع صبر مٹی سے
تو اپنے آپ اگ آتی ہے اس کی قبر مٹی سے

سجا رکھا تھا معبد کے کسی تاریک گوشے میں
بنا کر ایک دست مہرباں نے ابر مٹی سے

کہاں جی شاد رہتا ہے فقط کار محبت میں
کہ ورثے میں ملا ہے آدمی کو جبر مٹی سے

میں اس کوزے کے پانی سے کوئی شمشیر ڈھالوں گا
اور اس کو آئینے سے آب دوں گا صبر مٹی سے

وہ کس دنیا سے آئے ہیں وہ کس دنیا کے باسی ہیں
بناتے ہیں جو گہرے پانیوں میں قبر مٹی سے

اسی دنیا میں بستے ہیں عجب کچھ لوگ ایسے بھی
جو پل میں کھینچ سکتے ہیں ردائے جبر مٹی سے

میں اگلے جشن میں چوموں گا ان بے داغ ہاتھوں کو
کہ جن ہاتھوں نے ڈھالا ہے چراغ ابر مٹی سے


Leave a comment

+