شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اہتمام صادق

  • غزل


جو ایک عمر ہنسا تھا مجھے ستاتے ہوئے


جو ایک عمر ہنسا تھا مجھے ستاتے ہوئے
وہ رو پڑا ہے مری داستاں سناتے ہوئے

کسی کے پیار کی یہ آخری نشانی ہے
ہوا نے یہ بھی نہ سوچا دیا بجھاتے ہوئے

تمہیں بھی وقت کی گردش نگل نہ جائے کہیں
ذرا خیال ہو میری ہنسی اڑاتے ہوئے

وہ شخص جس کا تعلق نہ تھا کوئی مجھ سے
یہ کیا کہ رونے لگا مجھ سے دور جاتے ہوئے

نگاہ ناز کی فرما روائیاں توبہ
وہ مسکرا بھی رہی تھیں سزا سناتے ہوئے

علاج اپنے اندھیروں کا آپ خود کیجے
کمہار تھک سے گئے ہیں دیا بناتے ہوئے

گھلا ہے درد فضاؤں میں اس طرح صادقؔ
کہ جان جاتی ہے اک بار مسکراتے ہوئے


Leave a comment

+