شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

پرتپال سنگھ بیتاب

  • غزل


سر جزیروں کے پھر سے ابھرنے لگے


سر جزیروں کے پھر سے ابھرنے لگے
وہ جو پانی چڑھے تھے اترنے لگے

اب کسی دوست سے کوئی شکوہ نہیں
وقت کے ساتھ سب زخم بھرنے لگے

ہم نے ماضی میں ٹھکرائی ہیں منزلیں
راستے میں کہاں ہم ٹھہرنے لگے

موج در موج خشکی تھی پیش نظر
شور اندر کے دریا بھی کرنے لگے

ایسے کیا جرم سرزد ہوئے ارض پر
لوگ اپنے ہی سائے سے ڈرنے لگے

آج پھر آپ لاغر ہیں سورج میاں
دھوپ میں لوگ پھر سے ٹھٹھرنے لگے

کون سے منصبوں کی محبت میں ہم
اپنے منصب سے نیچے اترنے لگے

تم نے صحرا میں چھوڑے تھے جو نقش پا
آج وہ آندھیوں میں بکھرنے لگے


Leave a comment

+