شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعجاز گل

  • غزل


منظر وقت کی یکسانی میں بیٹھا ہوا ہوں


منظر وقت کی یکسانی میں بیٹھا ہوا ہوں
رات دن ایک سی ویرانی میں بیٹھا ہوا ہوں

کوئی سامان سفر ہے نہ مسافت در پیش
مطمئن بے سر و سامانی میں بیٹھا ہوا ہوں

کبھی نایافت کا ہے تو کبھی کم یافت کا غم
وجہ بے وجہ پریشانی میں بیٹھا ہوا ہوں

کار دشوار ہے آغاز سے منکر جب تک
کار بے کار کی آسانی میں بیٹھا ہوا ہوں

کل کہیں رفتہ میں تھا حال کی حیرت کا اسیر
اب کسی فردا کی حیرانی میں بیٹھا ہوا ہوں

خیر ہم زاد مرا دور تماشائی ہے
شر ہوں اور فطرت انسانی میں بیٹھا ہوا ہوں

جسم ہوں اور نفس ٹھہرا ہے ضامن میرا
ساعت عمر کی نگرانی میں بیٹھا ہوا ہوں

ایک بازار طلسمات ہے جس کے اندر
جیب خالی تری ارزانی میں بیٹھا ہوا ہوں

ریگ تا ریگ ہوں پھیلا ہوا صحرا کی طرح
اور سرابوں کی فراوانی میں بیٹھا ہوا ہوں

ایسا سناٹا ہے آواز سے ہول آتا ہے
اک بیاباں سا بیابانی میں بیٹھا ہوا ہوں

نہ میں بلقیس کہ ہو شہر سبا کی خواہش
نہ غم تخت سلیمانی میں بیٹھا ہوا ہوں


Leave a comment

+