شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

پریم کمار نظر

  • غزل


یہ کیا گلی ہے جہاں ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں


یہ کیا گلی ہے جہاں ڈرتے ڈرتے جاتے ہیں
گزرتے بھی نہیں لیکن گزرتے جاتے ہیں

بس اب تو اگلا سفر خشکیوں کا آتا ہے
ہماری رات کے دریا اترتے جاتے ہیں

جہاں میں کچھ نہیں ہوتا کسی کے کرنے سے
یہ لوگ پھر بھی کوئی کام کرتے جاتے ہیں

یہ کیسا ہم کو اشارہ ہے پار اترنے کا
وہ دیکھو لہروں میں کچھ ہاتھ ابھرتے جاتے ہیں

تمام شہر تو آشوب چشم کا ہے شکار
نہ جانے کس کے لیے ہم سنورتے جاتے ہیں

عجب نظام فنا و بقا کا ہے کہ جہاں
وہ جی اٹھیں گے دوبارہ جو مرتے جاتے ہیں

بھری ہیں دھند سے سارے نگر کی دہلیزیں
نظر میں جگنو ہی جگنو اترتے جاتے ہیں


Leave a comment

+