شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

درشکا وسانی

  • غزل


بھلا یہ کون ہے میرے ہی اندر مجھ سے رنجش میں


بھلا یہ کون ہے میرے ہی اندر مجھ سے رنجش میں
وہ مجھ کو ہی گنوا بیٹھا نہ جانے کس کی خواہش میں

سمندر ایک ٹھہرا سا ابھی تک ہے ترے اندر
ندی بن کر مرا بہنا تجھے ملنے کی کوشش میں

دریچے پر کھڑے ہو کر تجھے بس سوچتے رہنا
بہت سے کام باقی ہے بہت تھوڑی سی بارش میں

مرا وہ روٹھ کر رونا ترا ہنس کے چلے جانا
میں تجھ کو بھول نہ جاؤں تجھے پانے کی سازش میں

کہیں وہ چیر کر تیرا ہی سینہ بھاگ نا نکلے
اسے آزاد کر دو اب جو برسوں سے ہے بندش میں


Leave a comment

+