ممکن ہے کہ ملتے کوئی دم دونوں کنارے
اک موج کے محتاج تھے ہم دونوں کنارے
یوں آنکھ جھپکتا نہیں بہتا ہوا پانی
منظر میں نہ ہو جائیں بہم دونوں کنارے
آباد ہمیشہ ہی رہے گا یہ سمندر
رکھتے ہیں مچھیروں کا بھرم دونوں کنارے
تا عمر کسی موجۂ خوش رو کی ہوس میں
بے دار رہے دم ہمہ دم دونوں کنارے
کھلتی ہے یہاں آ کے مرے خواب کی وسعت
ہوتے ہیں مری آنکھ میں ضم دونوں کنارے
یہ فاصلہ مٹی سے کبھی طے نہیں ہوگا
دریا کی ہیں وسعت پہ قسم دونوں کنارے
سب سیر کو نکلیں گے سر ساحل ہر خواب
سیاحوں کے چومیں گے قدم دونوں کنارے
کشتی کی طرح عمر خضر گیر ہے آزرؔ
ہستی کے ہیں موجود و عدم دونوں کنارے
Leave a comment