شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اعجازالحق شہاب

  • غزل


اک آفتاب کا رنگ ایک ماہتاب کا رنگ


اک آفتاب کا رنگ ایک ماہتاب کا رنگ
ملا کے ڈھالا گیا ہے ترے شباب کا رنگ

نمایاں جسم ہے اور شوخ ہے نقاب کا رنگ
بدل رہا ہے زمانے میں اب حجاب کا رنگ

ملی نظر جو مری دفعتاً سر محفل
حیا سے رخ پہ تیرے آ گیا گلاب کا رنگ

نکل پڑے ہیں جو جگنو لئے ہوئے قندیل
اتر گیا ہے تبھی سے اس آفتاب کا رنگ

سنا ہے تخت لرزتے ہیں تاج ہلتے ہیں
جو ہم غزل میں ملاتے ہیں انقلاب کا رنگ

سلیقہ زیست کو جینے کا ہم نے سیکھا ہے
سروں پہ جب سے چڑھا ہے تیری کتاب کا رنگ

وہ پہلے پہلے سے تیور ہوا ہوئے دیکھو
اڑا اڑا سا ہے کچھ دن سے اب جناب کا رنگ

کسی کے سر پہ چڑھا رنگ میرؔ و غالبؔ کا
کسی کے سر پہ چڑھے گا کبھی شہابؔ کا رنگ


Leave a comment

+