شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

قیصر خالد

  • غزل


ہر موج حوادث رکھتی ہے سینے میں بھنور کچھ پنہاں بھی


ہر موج حوادث رکھتی ہے سینے میں بھنور کچھ پنہاں بھی
رہتے ہیں مقابل ہی اکثر اشکال بھی دل میں ایماں بھی

شہروں کی چمک نے آنکھوں کو دکھلائے وہ منظر جن کے لئے
قدروں کا تغیر کیا کہیے چھوڑ آئے زمینیں دہقاں بھی

ہر سمت لرزتی چیخیں ہیں جلتے ہوئے غنچوں، کلیوں کی
پوچھے ہے زمین گل ہم سے کیا کچھ ہے علاج ویراں بھی

تخلیق عجائب لاکھ ہوئی فی العصر یہ عقدہ اپنی جگہ
اک حرف وفا کی قامت پر یہ عہد رہا ہے حیراں بھی

تھی سوچ یہ منفی، لگنے لگی مثبت بھی جو نعرہ بن کے یہاں
آزادیٔ نسواں کہہ کہہ کر عورت کو کیا ہے عریاں بھی

اس شہر کثافت میں آ کر اوجھل ہوئے آنکھوں سے منظر
وہ گاؤں کا سبزہ وہ بحر و بر وہ دھوپ وہ برق و باراں بھی

اک عشق میں لکھ لکھ کر کاٹا ہر لفظ کتاب ہستی کا
کر ڈالا اسی نے زیر و زبر جو کام لگے تھا آساں بھی

گردش میں زمانہ ہے ہر پل امید پہ دنیا ہے قائم
کل جن سے تھے سہمے سہمے سے ہم، ہیں آج وہ لرزاں لرزاں بھی

اسرار زمانہ بن بن کر آتے ہیں یہاں دن رات مگر
فطرت کے مصائب سے اب تک ہارا ہے کہاں یہ انساں بھی

ہو پائے کسی کے ہم بھی کہاں یوں کوئی ہمارا بھی نہ ہوا
کب ٹھہری کسی اک پر بھی نظر کیا چیز ہے شہر خوباں بھی

انساں کا سمجھنا ہے باقی، انجام کو پہنچے ہے دنیا
بن جائے فرشتہ جب چاہے ہو جائے یہ اکثر حیواں بھی

ڈرتا ہے دل کم فہم یہاں کیا جانئے کیا ہو بستی کا
رہتے ہیں اب اہل الفت کے ہمراہ یہ نفرت سازاں بھی

عاجز ہے یہ انساں اپنی ہی سنائی پہ جب جب غور کرے
ہے فرق نمایاں ہر اک میں پھر بھی ہے سبھی کچھ یکساں بھی

اثبات تفکر رکھتا ہے ہم تم میں توازن بھی لیکن
رشتوں پر پڑی جب برف انا کام آئے نہ عہد و پیماں بھی

معیار ادب بھی ٹھہرے سدا ہو اہل جہاں کے لب پر بھی
تخلیق غزل کر ایسی اک ہو شاد کہ جس پر یزداں بھی

محتاط بنایا ہوگا انہیں حالات نے اپنے گھر کے ہی
اب اپنے ہی گھر میں رہتے ہیں خالدؔ جو بہ شکل میہماں بھی


Leave a comment

+