زندگی چمکے مری مہر درخشاں کی طرح
تم اگر ساتھ دو میرا شب ہجراں کی طرح
پھر میں خود آپ سے تعبیر محبت پوچھوں
آپ آ جائیں کسی خواب پریشاں کی طرح
لاکھ قربانیاں اک ذات کی خاطر سے ہوئیں
کوئی پتھر بھی نہ پوجا گیا انساں کی طرح
اور کیا پیش کروں حاصل ضبط غم عشق
چشم گریاں کی طرح چہرۂ خنداں کی طرح
ہاتھ آ جائے اگر گوشۂ دامان کرم
وسعتیں دوں میں اسے عالم امکاں کی طرح
اور کیا لاؤں میں تکمیل بہاراں کا ثبوت
اپنے دامن کی طرح اپنے گریباں کی طرح
آندھیاں آتی ہیں گل کرنے کو احساسؔ بہت
جھلملاتا ہوں چراغ تہ داماں کی طرح
Leave a comment