شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حزیں لدھیانوی

  • غزل


اس طرح پیکر وفا ہو جائیں


اس طرح پیکر وفا ہو جائیں
ایک دوجے کا آسرا ہو جائیں

آؤ مل بیٹھ کر ہنسیں بولیں
نہیں معلوم کب جدا ہو جائیں

دکھ کسی کو ہو ہم تڑپ اٹھیں
اس قدر درد آشنا ہو جائیں

خشک دھرتی چٹخ رہی ہو جب
بھری برسات کی گھٹا ہو جائیں

شہر جامد ہے لوگ بے آواز
ایسے ماحول میں صدا ہو جائیں

دشمنوں کے لیے بنیں صرصر
دوستوں کے لیے صبا ہو جائیں

جو ہمیں دیکھے دیکھ لے خود کو
سر بسر سطح آئینہ ہو جائیں

آگ دل کی اگر بھڑک اٹھے
یہ دھندلکے سحر نما ہو جائیں

رنگ عالم بدل رہا ہے حزیںؔ
نہیں معلوم کیا سے کیا ہو جائیں


Leave a comment

+