شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

بدر واسطی

  • غزل


کس کو فرصت کون پڑھے گا چہرے جیسا سچا سچ


کس کو فرصت کون پڑھے گا چہرے جیسا سچا سچ
روز عدالت میں چلتا ہے کھوٹا سکہ جھوٹا سچ

اونچے خوابوں کے تاجر سے کوئی نہیں یہ پوچھنے والا
کون جوانوں کے چہروں پر لکھ دیتا ہے پیلا سچ

ہم سے کیا پوچھو گے صاحب شہر کبھی کا ٹوٹ چکا
شام کی میلی چادر پر ہے ٹکڑے ٹکڑے پھیلا سچ

ان آنکھوں میں مستقبل کے خواب بھلا کیا اتریں گے
جن آنکھوں نے دیکھ لیا ہے وقت سے پہلے نیلا سچ

اس کے بیٹا بیٹی کالج اسی طرف سے جاتے ہیں
رات کو جس نے بیچ سڑک پر پھینکا ہے اک گیلا سچ

سب نے ہم کو خوشحالی کے خواب دکھا کر چھوڑ دیا
گلیوں گلیوں گھوم رہا ہے دھول میں لپٹا ننگا سچ

بدرؔ تمہاری راہ میں آ کر دنیا جال بچھائے گی
جو کہتے ہو کہتے رہنا چھوڑ نہ دینا لکھنا سچ


Leave a comment

+