شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید جمیل

  • غزل


کرتا ہے بے کار کی باتیں کام کی کوئی بات نہیں


کرتا ہے بے کار کی باتیں کام کی کوئی بات نہیں
غیروں جیسی بات ہے تیری اپنوں جیسی بات نہیں

جام سبھی کے ہاتھوں میں ہے ہاتھ ہمارے خالی ہیں
کھلم کھلا نا انصافی ساقی اچھی بات نہیں

محفل میں جس کو بھی دیکھو روٹھا روٹھا لگتا ہے
کڑواہٹ ہے آوازوں میں کوئی میٹھی بات نہیں

کلمہ تیرا سپنا تیرا فکر تری اور تیرا خیال
صرف تری ہی بات زباں پر اور کسی کی بات نہیں

کہنے کو تو کہہ دی تو نے اپنے دل کی ساری بات
سچائی ہے لیکن یہ کہ یہ بھی ساری بات نہیں

کیسے ملیں ہم تم سے یارو کیسے بلائیں گھر اپنے
غم ہی غم ہیں پاس ہمارے کوئی خوشی کی بات نہیں

نا انصافی ہر جانب ہے ہر سو ظلمت ہی ظلمت
دیکھ کے یہ سب کیوں سب چپ ہیں کہتے حق کی بات نہیں

پہلے کیا کیا کچھ کہہ ڈالا پھر یہ کہہ کر صاف گئے
کر ڈالی ہے بھول زباں نے سوچی سمجھی بات نہیں

تیرے لئے ہی جیتا ہوں اور تیرے لئے ہی مرتا ہوں
منہ دیکھی جاویدؔ ہیں باتیں دل سے نکلی بات نہیں


Leave a comment

+