شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

عبید اللہ علیم

  • غزل


ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھی


ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھی
لیکن ہم نے مولا جیسی ذات نہیں دیکھی

اس کی شان عجیب کا منظر دیکھنے والا ہے
اک ایسا خورشید کہ جس نے رات نہیں دیکھی

بستر پر موجود رہے اور سیر ہفت افلاک
ایسی کسی پر رحمت کی برسات نہیں دیکھی

اس کی آل وہی جو اس کے نقش قدم پر
صرف ذات کی ہم نے آل سادات نہیں دیکھی

ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جاتی ہیں
کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی

اک دریائے رحمت ہے جو بہتا جاتا ہے
یہ شان برکات کسی کے ساتھ نہیں دیکھی

شاہوں کی تاریخ بھی ہم نے دیکھی ہے لیکن
اس کے در کے گداؤں والی بات نہیں دیکھی

اس کے نام پہ ماریں کھانا اب اعزاز ہمارا
اور کسی کی یہ عزت اوقات نہیں دیکھی

صدیوں کی اس دھوپ چھاؤں میں کوئی ہمیں بتلائے
پوری ہوئی کون سی اس کی بات نہیں دیکھی

اہل زمیں نے کون سا ہم پر ظلم نہیں ڈھایا
کون سی نصرت ہم نے اس کے ہاتھ نہیں دیکھی


Leave a comment

+