شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ناصر کاظمی

  • غزل


سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا


سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا

اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب ترا دھیان بھی اتنا نہ رہا

قصۂ شوق سناؤں کس کو
رازداری کا زمانا نہ رہا

زندگی جس کی تمنا میں کٹی
وہ مرے حال سے بیگانہ رہا

ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چودیس
گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا

دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی
خلق کو خوف خدا کا نہ رہا

اب تو سو جاؤ ستم کے مارو
آسماں پر کوئی تارا نہ رہا

RECITATIONS نعمان شوق



00:00/00:00 سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا نعمان شوق

Leave a comment

+