شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ماہر بلگرامی

  • غزل


لطف حیات نو ہے ہر اک انقلاب میں


لطف حیات نو ہے ہر اک انقلاب میں
ہیں اصل زندگی کے مزے پیچ و تاب میں

یوں تو بہت سی باتیں ہیں دل کی کتاب میں
لیکن ہے غم کا تذکرہ ہر ایک باب میں

لگ جائیں چار چاند ابھی آفتاب میں
تحلیل کر کے دیکھے تو کوئی گلاب میں

اف یہ عتاب پہلے ہی خط کے جواب میں
دھوکا مجھے ضرور ہوا انتخاب میں

پھر کیوں نہ تو بہ غرق ہو جام شراب میں
ہے آفتاب رقص کناں ماہتاب میں

پھر بھی مگر نگاہ کسی کی اسی پہ ہے
کیا رہ گیا ہے اب دل خانہ خراب میں

عاشق خوشی سے مر نہ کہیں جائے سنتے ہی
تصویر دل ہے آئی ادھر سے جواب میں

اس طرح گل شگفتہ ہے شبنم سے بھیگ کے
بیٹھا ہو کوئی جیسے کوئی نہا کر شراب میں

تر دامنی میں آئے نظر ہم ہی پیش پیش
اعمال زندگی کے حساب و کتاب میں

نفرت کا بھی جواب محبت سے دیجئے
لکھا یہی ہے دل کی مقدس کتاب میں

انمول دل سا گوہر نایاب دیکھیے
تحفہ ہے پیش خدمت عالی جناب میں

جنت کا تذکرہ کبھی کوئے صنم کی بات
دونوں جہاں کا لطف ہے جام شراب میں

اس فتنہ زا کو کون زمانے میں منہ لگائے
بد بوئے شر ہے آ رہی نام شراب میں

عہد جمود جیتے جی بے موت کی ہے موت
ہے لطف زندگی کا تو بس انقلاب میں

اللہ کہہ کے یاد کریں یا صنم کہیں
رہنے دیں حسن کو یوں ہی لیکن حجاب میں

ضبط غم وفا کا رہے ہر گھڑی خیال
پہلا سبق یہی ہے محبت کے باب میں

ماہرؔ غم حبیب کا اللہ بھلا کرے
اکثر غزل ہوئی ہے اسی پیچ و تاب میں


Leave a comment

+