شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

گلزار بخاری

  • غزل


ضابطے اور ہی مصداق پہ رکھے ہوئے ہیں


ضابطے اور ہی مصداق پہ رکھے ہوئے ہیں
آج کل صدق و صفا طاق پہ رکھے ہوئے ہیں

وہ جو خود معرکۂ عشق میں اترے بھی نہیں
شکوہ پسپائی کا عشاق پہ رکھے ہوئے ہیں

باندھ رکھا ہے محبت نے ازل سے ہم کو
سو توجہ اسی میثاق پہ رکھے ہوئے ہیں

دخل آنکھوں کا الجھنے میں بہت ہے لیکن
تہمتیں سب دل مشتاق پہ رکھے ہوئے ہیں

جانے کب سلسلۂ خیر و خبر کا ہو ظہور
دھیان ہم انفس و آفاق پہ رکھے ہوئے ہیں

دیکھیے کون سا مفہوم لیا جائے گا
بات کر کے نظر اطلاق پہ رکھے ہوئے ہیں

تابش شوق سے الفاظ ہیں روشن گلزارؔ
یا ستارے کف اوراق پہ رکھے ہوئے ہیں


Leave a comment

+