شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

محب عارفی

  • غزل


محرومیوں کا اک سبب جوش طلب خود بھی تو ہے


محرومیوں کا اک سبب جوش طلب خود بھی تو ہے
شعلے پہ لپکا اس طرح جیسے کوئی گل ہی تو ہے

کس وہم کس چکر میں ہو خودبیں بگولوں دم تو لو
سینے میں دل ہو بھی کہیں مانا کہ بیتابی تو ہے

سوجھے مگر کیا شمع کو اپنے اجالے کے سوا
ہر چند ذوق دید کا میدان تاریکی تو ہے

جھانکا ہے میں نے ساز میں پردہ ہٹا کر ساز کا
نغمہ نظر آ جائے گا یہ آس بے جا بھی تو ہے

ہر باغ میں اڑتا پھروں ہر شاخ پر گرتا رہوں
ہر گل سے خوشبو چوس لوں اب یہ میری ضد ہی تو ہے

ہے ہے وہ شیریں جھلکیاں کب تک مگر سر پھوڑیے
دیوار پھر دیوار ہے حالانکہ شیشے کی تو ہے

پھر بھی یہ دھن ہے موج سے دریا کو اپنے ناپ لوں
پیمانہ میرا ہے غلط مجھ کو خبر اتنی تو ہے

پیتا رہا کیا عمر بھر پی کر تمنا کا لہو
کچھ دن سے میری آستیں کچھ زیر لب کہتی تو ہے

ہوتی کہاں تک مسترد بے باکیٔ دست صبا
کھلنے لگا بند حیا آخر شگوفہ ہی تو ہے

تعمیر آخر کر لیا حسرت نے خوابوں کا حرم
شغل گنہ کے واسطے یہ آڑ بھی کافی تو ہے

مشق خود آشامی کروں سیراب ہونا سیکھ لوں
لبریز خود ہے تشنگی ساغر مرا خالی تو ہے

اب صلح کر بھی لیں محبؔ تنہائیوں سے وحشتیں
وہ میرا سایہ ہی سہی اک شے نظر آئی تو ہے


Leave a comment

+