شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

نبیل احمد نبیل

  • غزل


ہم کو یہ ڈر ہے کہ امکان کسی اور کا ہے


ہم کو یہ ڈر ہے کہ امکان کسی اور کا ہے
یعنی وہ شخص نگہبان کسی اور کا ہے

یہ جو ہر لحظہ دھڑکتے ہیں مرے سینے میں
دل کسی اور کا ارمان کسی اور کا ہے

غائبانہ یہی سمجھا وہ فقط میرا ہے
جب ملا تو لگا نادان کسی اور کا ہے

دستکیں سن کے ہی اندازہ ہوا تھا ہم کو
وہ ہمارا نہیں مہمان کسی اور کا ہے

حاکم شام کی بیعت سے کھلا ہے مجھ پر
تخت پر معنیٔ قرآن کسی اور کا ہے

ہم مسافر ہیں تو جانا ہے کہیں اور ہمیں
گھر کسی اور کا سامان کسی اور کا ہے

ہم یوں ہی قرض چکاتے رہے انجانے میں
کاش ہم جانتے تاوان کسی اور کا ہے

باندھ کر سر پہ کفن کود پڑے ہیں جس میں
جنگ ہے غیر کی میدان کسی اور کا ہے

رخ وہ رکھتا ہے بظاہر مری جانب لیکن
وہ تو میرا نہیں سلطان کسی اور کا ہے

میں ہوں ناخوش کہ خزاں آن پڑی ہے بے وقت
باغباں خوش ہے کہ نقصان کسی اور کا ہے

عمر بھر ہم نے پلایا ہے جنہیں اپنا لہو
وہ بہاریں وہ گلستان کسی اور کا ہے

یہ مکاں کس کی وراثت ہے ہمیں کیا معلوم
صحن اپنا ہے تو دالان کسی اور کا ہے

صحن گلشن سے نکل جانے کا میرا شاہا
میں سمجھتا رہا اعلان کسی اور کا ہے

کارواں لٹنے کا اس کو تو نہیں درد نبیلؔ
وہ سمجھتا ہے کہ نقصان کسی اور کا ہے

یوں بھی محروم ہیں ہم رنگ سے خوشبو سے نبیلؔ
پھول اپنے ہیں تو گلدان کسی اور کا ہے


Leave a comment

+