شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

نبیل احمد نبیل

  • غزل


تم نے کیا ہے تم نے اشارا بہت غلط


تم نے کیا ہے تم نے اشارا بہت غلط
دریا بہت درست کنارا بہت غلط

اس ہار میں ہے ہاتھ تمہارا بہت غلط
تم نے کیا ہے فیصلہ سارا بہت غلط

ہم ڈوب جائیں اپنے ہی غم کے بہاؤ میں
ہاں ہاں غلط غلط مرے یارا بہت غلط

اس کشت دل سے اس کے دل ریگ زار تک
بہنے لگا ہے خون کا دھارا بہت غلط

افسوس مجھ کو اس پہ سزا ہجر کی ملی
میں نے لکھا تھا نام تمہارا بہت غلط

میداں میں ایک فرد بھی زندہ نہ مل سکا
شب خون اس نے آخری مارا بہت غلط

ہم ہیں زمیں کے لوگ مگر دیکھ اے فلک
لیتا ہے امتحاں تو ہمارا بہت غلط

ہوگا کسی تو روز تمہارا حساب بھی
تم نے کسی غریب کو مارا بہت غلط

واقف تھا اپنے عشق کے انجام سے مگر
پھر بھی کسی پہ جان کو وارا بہت غلط

ہم دل زدوں کے واسطے یہ شب ہی ٹھیک ہے
نکلا ہے شب کا آخری تارا بہت غلط

افسوس اے نبیلؔ یہ تم نے سمجھ لیا
دل کو بھی جل بجھا سا شرارا بہت غلط

چہرہ صداقتوں کا ہوا مسخ اے نبیلؔ
اس نے بہایا جھوٹ کا دھارا بہت غلط


Leave a comment

+