شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

اسامہ امیر

  • غزل


بازار کائنات میں یہ فیصلہ ہوا


بازار کائنات میں یہ فیصلہ ہوا
یاران خوش ادا ہو تمسخر روا ہوا

بجلی کڑک رہی تھی عجب اہتمام سے
بچہ دعائیں مانگ رہا تھا ڈرا ہوا

وحشت نہیں جنون نہیں پھر بھی اضطراب
نو واردان عشق ہوا سو تو کیا ہوا

آئی تھی دشت قیس میں رسوا ہوئی چلی
آوارگی کے ساتھ بھی کتنا برا ہوا

میں شور کرنے والے قبیلے کا فرد تھا
پر بولتا نہیں تھا جبھی تو خدا ہوا

ماحول خوش گوار ہوا بھی تھی تازہ دم
اک پھول دست شاخ پہ نغمہ سرا ہوا

تیری ہی گفتگو سے کیا پیدا اک خیال
پھر شعر کہنے لگ گیا لہجہ نیا ہوا

کل رات معرکہ تھا عجب درمیان کا
میری تو یار خیر ہے دنیا کا کیا ہوا


Leave a comment

+