شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید لکھنوی

  • غزل


مجھ کو جینے سے فائدہ بھی نہیں


مجھ کو جینے سے فائدہ بھی نہیں
اور پھر مرضئ خدا بھی نہیں

نہیں معلوم کیا میں کہتا ہوں
تم نہیں ہو تو کیا خدا بھی نہیں

موت اب زندگی بھی ہے مجھ کو
جب مرے درد کی دوا بھی نہیں

سر بالیں وہ مسکراتے ہیں
میری تقدیر میں شفا بھی نہیں

جھلملاتا ہے صبح کا تارا
اب تو جینے کا آسرا بھی نہیں

در دل دار پاؤں کیا جاویدؔ
کہیں دو چار نقش پا بھی نہیں


Leave a comment

+