شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خرم خلیق

  • غزل


کیا لطف مسافت میں کہ ڈر کوئی نہیں ہے


کیا لطف مسافت میں کہ ڈر کوئی نہیں ہے
پانی کا سفر اور بھنور کوئی نہیں ہے

پھر کون ہے ساحل پہ جو رکنے نہیں دیتا
ویران جزیروں میں اگر کوئی نہیں ہے

اک چاپ اترتی ہے در دل پہ ہر اک شب
دیکھا ہے کئی بار مگر کوئی نہیں ہے

تم میری مسافت کے لیے آخری حد ہو
اب تم سے پرے راہ گزر کوئی نہیں ہے

ہر شخص ہے جیسے کوئی ویران حویلی
لکھا ہے یہ ماتھوں پہ کہ گھر کوئی نہیں ہے

ہے اپنے مقدر میں یہی تیرگی خرمؔ
اب رات کے دامن میں سحر کوئی نہیں ہے


Leave a comment

+