شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

بسمل سعیدی

  • غزل


زبان کیا ہے محبت کی گفتگو کیا ہے


زبان کیا ہے محبت کی گفتگو کیا ہے
بجز نگاہ کے پیغام آرزو کیا ہے

یہ جان حسن و محبت ہے آرزو کیا ہے
نہ ہو یہ دل میں تو میں کیا ہوں اور تو کیا ہے

لہو جو گرم نہ کر دے وہ آرزو کیا ہے
جو آرزو سے نہ گرمائے وہ لہو کیا ہے

خدا کرے نہ کرے حسن سے تجاوز عشق
ابھی تو مجھ سے وہی کہہ رہے ہیں تو کیا ہے

تجھے بھی بھول گئے تیرے ڈھونڈنے والے
یہ ہوش بھی تو نہیں ہے کہ جستجو کیا ہے

بجا کہ خون کی گرمی کا نام ہے انساں
نہ ہو جو گرم محبت سے وہ لہو کیا ہے

غلط سمجھ کے نہیں دیکھتا ہوں تیری طرف
یہ دیکھتا ہوں کہ انداز گفتگو کیا ہے

جنہیں ہے تجھ سے محبت وہ جانتے بھی نہیں
کہ رشک کہتے ہیں کس چیز کو عدو کیا ہے

رہے الٰہی مرے دل کی آبرو قائم
صدف میں ہے یہ گہر دل میں آرزو کیا ہے

ہے ان کی جنبش ابرو پہ آبرو کا مدار
جو جانتے بھی نہیں ہیں کہ آبرو کیا ہے

سوائے ذوق نظر اور کچھ نہیں بسملؔ
یہ پھول کیا ہیں یہ پھولوں میں رنگ و بو کیا ہے


Leave a comment

+