شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جاوید ناصر

  • غزل


زمیں پہ رہ کے ستارا سا ہو گیا تھا میں


زمیں پہ رہ کے ستارا سا ہو گیا تھا میں
مجھے خبر ہے تمہارا سا ہو گیا تھا میں

بلائے جاں تھی مگر کتنا پھوٹ کر روئی
ندی کے بیچ کنارا سا ہو گیا تھا میں

کسی نے میری متانت کا جب سبب پوچھا
بس ایک پل میں بچارا سا ہو گیا تھا میں

بدن کو روح نے ہموار کر لیا لیکن
اسے جو دیکھا کنوارا سا ہو گیا تھا میں

میں نیک نام نہ رسوا مگر سر محفل
یہ اور بات گوارا سا ہو گیا تھا میں

بہت خلاف تھی آنکھیں بہت اداس تھا دن
خود اپنے گھر میں نظارا سا ہو گیا تھا میں


Leave a comment

+