شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

نادر شاہجہاں پوری

  • غزل


کئے قرار مگر بے قرار ہی رکھا


کئے قرار مگر بے قرار ہی رکھا
ہمیں تو آپ نے امیدوار ہی رکھا

پس فنا بھی فلک نے غبار ہی رکھا
نہ رکھی خاک نہ سنگ مزار ہی رکھا

کسی کے درد جدائی نے ہم کو جیتے جی
مثال ابر سیہ اشک بار ہی رکھا

میں تیغ یار کا کیوں کر نہ دم بھروں جس نے
مزے خلش کے دئیے دل فگار ہی رکھا

ملا نہ چین کبھی ہم کو خاک ہو کر بھی
فلک نے دوش صبا پر سوار ہی رکھا

خیال عارض رنگیں نے روز آ آ کر
خزاں میں بھی ہمیں محو بہار ہی رکھا

کسی کی چشم مکیف نے کیا کہیں نادرؔ
تمام عمر ہمیں بادہ خوار ہی رکھا


Leave a comment

+