شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

لیث قریشی

  • غزل


کہیں سے بھی سخن معتبر نہیں آتا


کہیں سے بھی سخن معتبر نہیں آتا
نظر ہمیں کوئی اہل نظر نہیں آتا

ہوائے دشت یہ تاثیر خود فراموشی
بہت دنوں سے تصور میں گھر نہیں آتا

عجب شناور بحر وجود ہیں ہم بھی
ہمیں زمان و مکاں کا سفر نہیں آتا

لہو سے لفظ کی تخلیق ہم نہیں کرتے
جبھی تو اپنے بیاں میں اثر نہیں آتا

یہ سوچتے ہیں کہ منزل رسی سے کیا حاصل
جب اپنے ساتھ کوئی ہم سفر نہیں آتا

یہ عرصہ گاہ طلب قربتوں کی دنیا ہے
یہاں ہم ایسا کوئی بے ہنر نہیں آتا

دریچے روز ہی کھلتے ہیں بند ہوتے ہیں
مگر وہ چہرۂ رنگیں نظر نہیں آتا

حجاب کون سا مانع ہے کچھ نہیں معلوم
میں چاہتا ہوں وہ آئے مگر نہیں آتا

طلسم تیرہ شبی لیثؔ کس طرح ٹوٹے
کوئی بھی لے کے پیام سحر نہیں آتا


Leave a comment

+