شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

عبید صدیقی

  • غزل


تو بھی فریادی ہوا تھا التجا میں نے بھی کی


تو بھی فریادی ہوا تھا التجا میں نے بھی کی
تو نہ تھا مجرم اکیلا ہاں خطا میں نے بھی کی

ظلم دونوں نے کیا تھا دونوں تھے اس میں شریک
ابتدا گر تو نے کی تو انتہا میں نے بھی کی

صرف تو نے ہی نہیں کی جستجوئے چارہ گر
درد جب حد سے بڑھا تو کچھ دوا میں نے بھی کی

کس نے کیا مانگا فلک سے اور کس کو کیا ملا
ہاتھ تو نے بھی اٹھائے تھے دعا میں نے بھی کی

میں ترا حصہ نہ بن پایا یہ اچھا ہی ہوا
گو یہ خواہش اے ہجوم دل ربا میں نے بھی کی

سبزۂ بیگانہ سے رشتہ مرا کچھ کم نہیں
اس چمن کی آبیاری اے گھٹا میں نے بھی کی


Leave a comment

+