شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

ابراہیم حماد

  • غزل


کروں گا عشق وراثت کا کچھ بتاؤں گا نئیں


کروں گا عشق وراثت کا کچھ بتاؤں گا نئیں
میں اک غریب کی بیٹی کو آزماؤں گا نئیں

انہیں کہو کہ بہت ڈھیر شور و شر نہ کریں
میں ڈر گیا تو کئی روز مسکراؤں گا نئیں

تسلی دوں گا تو مر جائے گی وہ لڑکی ہے
میں جانے دوں گا گلے سے اسے لگاؤں گا نئیں

اسے خبر بھی نہیں ہوگی اتنا چاہوں گا
اسے پتہ بھی نہیں ہوگا میں بتاؤں گا نئیں

یہ راستہ بڑی مشکل سے طے کیا میں نے
یہ فاصلہ ہے دلوں کا اسے مٹاؤں گا نئیں

ترا مطالبہ ہے تیری یاد کے آنسو
میں اب کے رویا تو آنکھوں کو بھی بچاؤں گا نئیں

اور اب کی سالگرہ پر پلان کیا ہے ترا
اور اب کی بار تو میں سامنے بھی آؤں گا نئیں

میں تجھ سے آنکھ ملا کر غزل سناؤں گا
میں خود کو ڈوبتا دیکھوں گا اور بچاؤں گا نئیں


Leave a comment

+