شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

پریم بھنڈاری

  • غزل


بستی میں قتل عام کی کوشش نہ بن سکا


بستی میں قتل عام کی کوشش نہ بن سکا
میں قاتلوں کے ذہن کی سازش نہ بن سکا

کوئی کمی نہ اس میں تھی شاید اسی لیے
وہ شخص میرے واسطے خواہش نہ بن سکا

میں رک نہیں سکا تو مری بے بسی تھی یہ
بادل تھا اس کے صحن میں بارش نہ بن سکا

جس پر تمام عمر بہت ناز تھا مجھے
میرا وہ علم میری سفارش نہ بن سکا

کیا بات تھی وہ دل میں مرے عمر بھر رہا
جو شخص میرے گھر کی نمائش نہ بن سکا


Leave a comment

+