شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

خالد اخلاق

  • غزل


بہبود و مدد کی وہ سند سے نکل آئے


بہبود و مدد کی وہ سند سے نکل آئے
کچھ پیٹ غریبوں کی رسد سے نکل آئے

ان کو میں کھلی آنکھوں سے اب دیکھ رہا ہوں
کچھ خواب مری نیند کی زد سے نکل آئے

بچپن کی حدیں توڑ دے چل عمر کے ہمراہ
اب تو ترے بچے تیرے قد سے نکل آئے

راستے میں زمانے نے بچھا رکھے تھے کانٹے
ہم اپنے ارادوں کی مدد سے نکل آئے

مت ڈھونڈھ میرے دوست تبسم مرے لب پر
اب کیسے یہ آغوش لحد سے نکل آئے

خالدؔ مرے جذبات کی شدت میں کمی تھی
آنسو بھی مری آنکھوں کی حد سے نکل آئے


Leave a comment

+