شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

حاوی مومن آبادی

  • غزل


میں غریب تھا سہی پر مرا عشق تھا نرالا


میں غریب تھا سہی پر مرا عشق تھا نرالا
چلو یاد تو کرے گا مجھے بھول جانے والا

نہ جلاؤ ریگ تفتہ مرے دل کو یوں خدا را
کہیں پھٹ گیا جو دیکھو مرے پاؤں کا یہ چھالا

کبھی شعر میں سراہا کبھی نظم میں پرویا
میں نے آتش نہاں سے ترے حسن کو اجالا

مری جان کی اماں ہو میں نے کی بیاں حقیقت
نہیں ہضم ہوگا تجھ کو یہ غریب کا نوالہ

میں زمیں میں گڑ گیا تھا تجھے دیکھ کر نشے میں
میاں کل جو مغبچوں نے تری پگڑی کو اچھالا

مجھے شرم آ رہی ہے ہرے باغ مت دکھانا
تجھے یاد ہو جو ننگا بھرے باغ سے نکالا


Leave a comment

+