شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

فراست رضوی

  • غزل


مجھے زندگی نے دیا کچھ نہیں


مجھے زندگی نے دیا کچھ نہیں
مگر مجھ کو اس کا گلا کچھ نہیں

خیالوں کے خنجر بہت تیز ہیں
وہی خوش ہے جو سوچتا کچھ نہیں

بہت خوب رو تھا مرا ہم سخن
اسے دیکھنے میں سنا کچھ نہیں

بس اک پل کی دیوار ہے درمیاں
عدم سے مرا فاصلہ کچھ نہیں

وہ گل نذر خاک خزاں ہو گئے
خبر تجھ کو باد صبا کچھ نہیں

یہ ہنگامۂ عالم آب و گل
بجز ایک شور فنا کچھ نہیں

وہی ہجر ہے اور وہی وصل ہے
مرا تجربہ بھی نیا کچھ نہیں

طوالت مری گفتگو میں جو تھی
مرے پاس کہنے کو تھا کچھ نہیں

فراستؔ وہی بے حسی ہے یہاں
ترے گریے سے تو ہوا کچھ نہیں


Leave a comment

+