شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

جعفر شیرازی

  • غزل


دن دہکتی دھوپ نے مجھ کو جلایا دیر تک


دن دہکتی دھوپ نے مجھ کو جلایا دیر تک
رات تنہائی میں کالا ابر برسا دیر تک

تو یہ کہتا ہے کہ تو کل رات میرے ساتھ تھا
میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ کو ڈھونڈا دیر تک

پاس رکھ کر اجلے اجلے دودھ سے یادوں کے جسم
دیر سے بیٹھا ہوں میں بیٹھا رہوں گا دیر تک

پہلے تیری چاہتوں کے غم تھے اب فرقت کے دکھ
مجھ پہ اب طاری رہے گا یہ بھی عرصہ دیر تک

کون ٹھہرے آنے والے موسموں کے سامنے
کون خالی رکھ سکے طاق تماشا دیر تک

اب وہ باتیں اب وہ قصے کس طرح جعفرؔ بھلائیں
ایسے صدموں کا اثر دل پر رہے گا دیر تک


Leave a comment

+