شریک ہوں اور تازہ ترین معلومات حاصل کریں

تنویر دہلوی

  • غزل


جا نہ تو حسرت دیدار ابھی باقی ہے


جا نہ تو حسرت دیدار ابھی باقی ہے
اک رمق مجھ میں دم یار ابھی باقی ہے

کیوں نہ دیکھوں انہیں نظروں سے خریدار کی میں
حسن کی گرمئ بازار ابھی باقی ہے

سب ہوئے حسرت و ارماں تو شب غم میں شہید
رہ گیا اک یہ گنہ گار ابھی باقی ہے

مل کے بھی مجھ سے کھٹکتے رہے ہر بات پہ وہ
خار نکلا خلش خار ابھی باقی ہے

اٹھ کے تنویرؔ کے پہلو سے نہ جانا گھر کو
دوپہر رات ستم گار ابھی باقی ہے


Leave a comment

+